حوزہ علمیہ کےاستاد حجۃ الاسلام والمسلمین علی رضا پناہیان نےگزشتہ رات حسینیہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا میں منعقد ہونے والے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئےکہا ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بابرکت زندگی کے دوران مستحکم سیاسی مقام کےمالک نہیں تھے کیونکہ غدیرخم کےموقع پرآپ کے لیےلوگوں کےسامنے اپنےجانشین کا تعارف کروانا انتہائی سخت کام تھا۔
انہوں نےمزید کہا ہےکہ اس دورمیں اسلامی معاشرہ سیاسی طورپرامیرالمومنین امام علی علیہ السلام کو جانشین کے عنوان سے تسلیم کرنےکی صلاحیت نہیں رکھتا تھا یہی وجہ ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس الہی حکم کوبیان کرنے میں شک وتردید میں مبتلا تھےاسی بنا پراللہ تعالیٰ نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا تھا: اے میرے محبوب اگرتونے یہ کام نہ کیا تو تیری رسالت مکمل نہیں ہوگی اورگویا کہ تم نےکوئی کام نہیں کیا ہے۔ جب پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیرخم میں اس الہی امرکو پہنچایا تو آگے بیٹھے ہوا ایک گروہ اٹھ کرپیچھےکی طرف چلا گیا کہ جو ایک انتہائی گھٹیا اورپست حرکت تھی اوراس وجہ سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبےکو روک لیا تھا۔
حجۃ الاسلام پناہیان نےکہا ہےکہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قریش پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےجتنا بغض وکینہ رکھتے تھے، اسے مجھ پرنکالا ہے۔ اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض وکینہ رکھتے تھے۔ یعنی قریش، دینی لحاظ سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی مشکل نہیں رکھتےتھے بلکہ سیاسی لحاظ سےمشکل رکھتے تھے۔
انہوں نےمزید کہا ہےکہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ بغض وکینہ ظاہرکرنےکی دلیل یہ ہے کہ وہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس لیے اپنے بغض وکینےکا اظہارنہیں کرتے تھے کیونکہ پیغمبرکا حالات پرپورا کنٹرول تھا لیکن آپ کی رحلت کے بعد خلافت کےغاصبوں نےحالات کو تبدیل کردیاتھا۔
حوزہ ویونیورسٹی کےاستاد نےکہا ہے کہ حسد کو اگرسیاسی میدان نہ ملے تو وہ ظاہرنہیں ہوتا ہے۔ طلحہ اورزبیرحسد رکھتے تھے لیکن کیونکہ اپنے حسد کو ظاہرکرنے کے لیے ان کے پاس سیاسی میدان موجود نہیں تھا یہاں تک کہ معاویہ نےایک خط لکھ کرانہیں گمراہ کردیا تھا۔
انہوں نےمزید کہا ہےکہ سیاست کے میدان میں بات کا صحیح اورغلط ہونا اہم نہیں ہے بلکہ اس کلام سے استفادہ کرنےکی اہمیت ہے۔ آپ جب دیکھتےہیں کہ ایک سیاستدان گفتگوکرتا ہےتو سب سے پہلےاس کےاغراض ومقاصد کو سمجھنا چاہیے۔ قائدانقلاب اسلامی نےآیت اللہ مہدوی کنی کی رحلت پرفرمایا تھا کہ وہ ایک سچےاورصادق سیاستدان تھے۔ اگرچہ ہمارے پاس اوربھی سیاستدان تھے لیکن آپ نے ہرگز ان کے بارے میں ایسا نہیں فرمایا ہے۔